BB of Java Vs BB of Pakistan

۔600ء سے 1200ء تک کے زمانے میں جب عرب کے مسلمان تاجر اپنے اثر و رسوخ کو مشرق و مغرب میں دور دور کے ملکوں تک پھیلا رہے تھے، ہندوستان کا تمدن اپنے بوقلموں عقائد و سوم کے ساتھ شرق الہند کے دور افتادہ (Far Flung) ملکوں اور جزیروں پر اپنا سکہ جما رہا تھا جس کےآثار سماٹرا، جاوا، ملایا بالی سیلیبینز، فلپائین ، بورینو، انام کموڈیا اور بحر اکلاہل کے دور افتادہ جزیروں میں اب تک موجود ہیں اور تاریخی ریکارڈ میں ثبت ہو چکے ہیں۔
کتبوں سے جو اس دور کی سنسکرت زبان میں اور جاوا کے قدیم باشندوں کی زبان میں لکھے گئے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ 637ء سے 649ء تک وسطی جاوا کی کالنگا ریاست کا ستارہ عروج پر تھا، اس ریاست کی ایک رانی سیما دیوی کے عہد کے امن کی کیفیت ایک عرب تاجر کی ڈائری سے ملی ہے جن کی تجارتی بستیاں اسی زمانے میں سماٹرا کے شمال مغربی ساحل پر قائم ہونے لگی تھیں۔ عرب تاجر لکھتا ہے کہ سیما دیطی کی مملکت میں چوری کا نام تک نہیں، اس تاجر نے سونے سے بھری ہوئی تھیلی سر راہ پھینک دی جسے تین سال تک کسی نے نہیں چھوا، آخر رانی کے بیٹے کا پاؤں چھو گیا تو رانی نے اس کا انگوٹھا کٹوا دیا۔

کیا آج لگ بھگ 1300 سال بعد ہماری تۃزیب اس مقام تک پہنچ سکی ہے؟ میں کسی مذہب کسی مسلک یا ملک و قوم کی بات نہیں پوری انسانیت کی بات کر رہا ہوں۔ کیا اس وقت دنیا میں ایسی مثال موجود ہے کہ کسی حکمران نے یوں اپنے خاندان میں احتساب کیا ہو؟ نہیں۔ اس وقت شرقِ بعید یا وسطی کے امیر اور مغرب کے امیر و طاقتور ممالک میں بھی ایسا احتساب ممکن نہیں ہو سکا۔ عرب، ایسی قوم تھی اور ہے کہ جس کے ذہن میں قومیت بہت گہری ہوتی ہے۔ عرب خود کو قومی غرور میں عرب کہتے تھے اور ہیں۔ میں اس کو غرور اس لئے کہتا ہوں کیوں کہ اگر وہ دوسروں کہ عجمی یعنی گونگا نہ کہتے تو یہ فخر ہوتا۔ مگر یہ ایک ایسا واقعہ تھا کہ عرب تاجر کو محفوظ کرنا پڑا۔
بحرحال کچھ باتیں آپ کو یقیناً عجیب لگی ہوں گی ان کے لئے تنقید کا در کھلا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں تھا کہ کسی نے سونا نہیں اٹھایا؟ اس کا جواب اس روائت کے آخر میں ہے کہ رانی صاحبہ کے عدل کا یہ عالم تھا کہ اگر ان کا بیٹا بھی قانون کی آڑ میں آجائے تو اس کی بخشش نہیں۔ چہ ذائۡقہ کہ وہ اس کے لئے کوئی این آر او پیش کرتیں۔ بات اصول کی ہے بات انصاف کی ہے بات ضمیر کی ہے۔ ہم احتساب کرنا چاہتے ہیں ہم عدل چاہتے ہیں ہم قانون کی بالادستی چاہتے ہیں۔ مگر بس دوسروں پر، ہم اپنا اور اپنوں کا احتساب نہیں کرتے، ہم دوسروں کو مذہبی رواداری کی تبلیغ کرتے ہیں مگر خود عمل نہیں کرتے۔ کیا ہمارے شہید و مقتول رسیاسی رہنماؤں کو اپنے شوہر اپنی بیویاں اپنے بچے نظر نہیں آتے تھے؟ کیا وجہ ہے کہ ہم بھول جاتے ہیں کہ وقت جب اپنا فیصلہ کرتا ہے تو وہ کسی قومی مفاہمتی ۡقانون کو نہیں دیکھتا؟
ہم کب بالغ نظر ہوں گے؟ کیا انصاف صرف عدالتوں کا کام ہے؟ کیا یہ انصاف ہے کہ عدالت کسی کو سزا دے اور صدر محترم اس کو شاباشی دے کر معاف فرما دیں؟ چلیے مان لیا کہ قانون اجازت دیتا ہو گا۔۔۔ مگر کیا ایسا قانون بنا کر قانون کو توڑا نہیں گیا؟ کیوں کہ قانون تو بالا ہوتا ہے اور اس پر بالا نشین ہونے والا مجرم ہوتا ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ تو ایک بڑھیا کو ایک دیہاتی کو جواب دہ ہوں، جناب علی بن ابو طالب علیہ السلام اپنی زرہ کے مقدمے میں عدالت جائیں جناب عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جلسہ عام میں توبہ کروائیں مگر فوزیہ وہاب صاحبہ فرما دیں کہ اس وقت آئین نہیں تھا؟ اور ہمارے معزز شوہر بینظیر کو استثناء حاصل ہو؟
کیا ہم نے قرارداد مقاصد کو پھاڑ نہیں ڈالا؟
کیا ہم قوم ہیں؟
[Blog By : Muhammad Usman | Mirza Usman sync +923217744778 | 03217744778]