ایک تھا سانپ


ایک تھا سانپ۔۔۔سانپ کی چالاکیاں
سنتے ہیں کسی زمانے میں ایک شہر میں ایک بڑا سانپ رہا کرتا تھا۔ سانپ کیا اس کا تمام قبیلہ بہت درویش صفت تھا۔ ان بےچارے سانپوں کے پاس اپنا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ لہٰزا یہ سانپ "پھرتا ہوں در بدر ۔۔ کبھی اس نگر کبھی اُس نگر " کے مصداق چند کیڑوں کی تلاش میں بھٹکتے رہتے ۔ اب غربت کا یہ عالم کہ روٹی اور مکان تو ان کے پاس تھا نہیں مگر فطرت کی ستم ظریفی کہ سانپ کو ہر سال اپنی کھال یعنی اپنا لباس بھی بدلنا پڑتا ہے۔۔۔ لہٰزا "روٹی کپڑا اور مکان" کی طرح کیڑوں کھالوں اور بِلّوں کی تلاش میں یہ بےچارے سانپ صحرا میں جا بسے۔

اب صحرا تو صحرا ہی ہوتا ہے۔۔۔ اُس پر سورج کا پہرا ہوتا ہے۔۔۔ ایسے میں سراب تو نظر آتے ہی ہیں۔۔۔ دور ایک بیچارہ مینڈک چلا جا رہا تھا، مینڈک کی فطرت بہت نازک ہوتی ہے، یہ زیادہ تر وقت ٹھنڈی جگہوں پر گزارتے ہیں۔ مینڈکوں میں ایک خصوصیت اور بھی ہے جو ان کا طرّہ امتیاز بھی ہے۔ نہیں نہیں بھئی امتیاز کا طرّہ نہیں طرّے کا امتیاز۔۔۔ مطلب علامہ صاحب سے جب پوچھا تھا تو انہوں نے دو گھنٹے سوچ کر فیصلہ کیا کہ اپنی لغات میں سے ڈھونڈھ کر بتائیں گے یہ الگ کہ ڈھونڈھنے کے لئے ان کی عینک بھی ڈھونڈھنا پڑی۔۔۔ خیر مسمی بے چارہ عثمان اب مینڈک محترم کی طرف روئے سخن موڑتا ہے۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ مینڈک کی ایک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ مینڈک بہت "جمہوری" قسم کا جاندار ہے، خصوصاً جب مینڈک کو پانی کے بحران کا سامنا ہو تو مینڈک اپنی جمہوری آواز بلند کر کےرب الارباب کے حضوربھی اپنا مدعا منوا لیتے ہیں۔ سنا ہے دو پائے والا ایک جاندار بھی ایک جمہوری قربانی کی کھال پر بیٹھ کر ہر جگہ بہت جمہوری بنا پھرتا تھا۔ پھر پتا چلا محترم تو "غیر جمہوری آمدن" سے اپنے ہوٹل ووٹل کے اللے تللے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے مینڈکوں کو دیکھ کر ڈارون کا فلسفہ غلط لگتا ہے کہ انسان بندر تھا۔۔۔ لگتا ہے انسان پہلے مینڈک تھا جب غیر جمہوری ہوا تو انسان بنا۔۔۔ پھر اب وہ ہر جگہ جمہوریت کو روتا پھر رہا ہے۔ کبھی وردی میں تو کبھی زردی میں زرد۔داری مطلب عوام کو بھوک افلاس سے زرد کرنے میں مصروف رہتا ہے پھر بھی جمہوری کہلاتا ہے۔
تو جناب مینڈک خراماں خراماں جا رہا تھا کہ سانپ نے اس کو دیکھ لیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس کا مال ہڑپ کیا جائے۔ پھر کیا تھا۔ سانپوں نے مینڈک کو گھیر لیا اور اس کا راشن کھا پی گئے اسطرح جیسے حدیبیہ پیپر ملز اور مہران بنک کا پیسہ۔۔۔۔ اوہو پیسے کو چھوڑیں سانپ کو پیٹیں اگر آج سانپ کو نا پیٹا تو کل اس کی لکیر پیٹنے سے کچھ نہیں ملے گا کب سے پیٹ رہا ہوں مگر ہے کوئی جو سنے؟

خیر مینڈک بیچارہ کیا کرتا؟ ہو حسرت بھری نگاہوں سے سب لٹتا دیکھتا رہا۔ سانپ نے کچھ وقت تو بتایا مگر پھر بھوک لگی تو اس کا اگلا شکار مینڈک ہو نا پڑا۔ قصہ مختصر اب سانپ مینڈک خور بن چکا تھا۔ اسی طرح دن گزرتے چلے گئے اب وہی صحرا سانپ کی آماجگاہ بن چکا تھا۔ رفتہ رفتہ وہ علاقہ خطرناک مشہور ہو گیا۔ اسی سانپ کا ایک خاندانی حریف جو بظاہر ظلم کو جدل کے خلاف تھا اور ہر قسم کے جاگیردار سانپ کے سامنے رابن ہڈ تھا مگر خود جاگیردار تھا، وہ سانپ اب طاقت میں آرہا تھا۔ کچھ وقت گزرا تو ایک اس سانپ کے خلاف کچھ ایسا ہوا کہ اس کو موت کو گلے سے لگانا پڑا، اس سانپ کی ایک منہ بولی بیٹی تھی جو کہ در اصل چھپکلی تھی۔ خیر سانپ نے اس کی موت پر ایک بڑی پارٹی دی اور پھر اپنے حریف کے مرنے کے بعد بے فکر ہو کر اپنی بدمعاشیاں کرنے لگا۔ اسی سانپ کا بچہ جو کہ زرد رنگ کا تھا اور اس کی دم کسی آری کی طرح بھی اور اسی وجہ سے آری ۔ زرد کہلاتا تھا، اس کی نظر اس چھپکلی پر پڑ گئی،پھر کیا تھا بچہ فریفتہ ہو گیا۔۔۔ اور پھر بہت منت سماجت کے بعد بچے کی چھپکلی سے شادی کرا دی گئی، چھپکلی کی نسبت تو آپ جانتے ہی ہیں کہ شیطان سے کی جاتی ہے اور چھپکلی کی گرفت بس اپنی مظبوط بنیاد یعنی ٹانگوں پر ہوتی ہے ورنہ یہ کچھ نہیں۔ دوسرے چھپکلی بہت ٹھنڈے دماغ سے انتظار کر کے وار کرتی ہے۔ تیسرے چھپکلی کبھی چھپکلے پر انحصار نہیں کرتی وغیرہ وغیرہ۔۔۔

غرض دن گزرتے گئے اور سانپ کے گھر اب ایک بیٹا بھی پیدا ہو چکا تھا ویسے تو سانپ کی اور بھی اولاد ہے مگر وہ اس لئے قابل ذکر ہے کہ ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ سانپ کے اس سنپولئے کی نسبت نانا سے یعنی سانپ سے کی جائے تو تب بھی سانپ کا بچہ ہے اور باپ سے کی جائے تو تب بھی۔۔۔۔ سنا ہے سانپ کے بچے میں ذہر سانپ سے زیادہ ہوتا ہے۔ اور یہ بھی کے اگر وہ چھپکلی سے جوڑا جائے جس نے ایک وقت میں خواہش ظاہر کی بھی کہ ملک واپس آنا اتنا ضروری ہے کہ جنگل کا چوہدری گیڈر اپنے بچے ہمسائے گیڈر سے کہے کہ وہ اس کے ملک پر حملہ کرے وغیرہ۔۔۔۔ تو تب بھی وہ سانپ جمع چھپکلی بنتا ہے۔

ہاں اگر سانپ اور چھپکلی کے پیروکار اتنا ہی جان لیں کہ ناگن تو اپنے بچے بھی کھا جاتی ہے اور بڑے سانپ نے اقتدار کے لئے چھپکلی بیگم کو ہی کھانے کی سازش کی ہے، اور یہ الگ بات ہے کہ سانپ نا چھپکلی نگل سکا نا ہی اسے اگل سکا ہے مگر کیا بچے کو اپنی ماما یاد نہیں آتیں؟ وہ تو سنا ہے ولائتی چھپکلیوں کے ساتھ رنگ رلیاں مناتا ہے۔۔۔۔۔؟ جبکہ اس کا باپ خزانے پر ناگ بنا بیٹھا ہے۔۔۔

جو سنپولیا ہو اور اپنی ماں کا نا ہو وہ دھری ماں کا کیا ہو گا؟
سانپ بھی اپنے بل کی حفاظت کرتا ہے مگر۔۔۔۔۔۔

اس لئے ہمیں کم سے کم ایک مثالی سانپ ہی بن جانا چاہیے۔ اغیار ہمارے دروازے پر آ چکے ہیں اور ہمیں ابھی تک یہ نہیں پتا کہ ہمارا پانی کس نے کب چوری کرانے کی سازش کی تھی۔۔۔؟

مسیحی بھائیوں کی مقدس اناجیل کے مطابق جناب ابن مریم علیہ السلام کا فرمان ہے کہ سانپ کی طرح چالاک اور کبوتر کی طرح بے ضرر رہو۔

جناب مسیح علیہ الصلوہ والسلام تو اہل تصوف کے مطابق بھی حرف آخر ہیں۔ اس پاک ہستی کے فرمان پر عمل کرنا ہے تو پہلے سانپ کی طرح چالاک ، ہوشیار، اپنے بھلے برے کے عالم اوراپنے دفاع کے قابل بنیے پھر شرافت کا مظاہرہ فرما کر کبوتر کی طرح بےضرر بنیے کیوں کے کمزور کی شرافت بزدلی ہوتی ہے اور طاقتور کی کمزور پر جنگ کم ظرفی و کمینگی۔

[اس کہانی کے تمام نام،مقام، کرداروں کے نام پیش کردہ واقعات و سچویشنز قطعاً فرضی ہیں کسی قسم کی کلی یا جزوی مماثلت محض اتفاقی ہو گی]۔
amphibian
[For Personal Use Only ]